"ولاد دی امپیرل"ولاچیا کا وہ ظالم اور بے رحم امیر جس نے لاکھوں انسانوں کو بے رحمی سے قتل کیا تھا۔
ریاست ِولاچیا جس نے "کوسوو"کی جنگ کے بعد سے ہی سلطنت عثمانیہ کی اطاعت قبول کر لی تھی۔اس پر اب "ولاد دی امپیرل"جو ڈراکولا کے نام سے بھی مشہور تھا ،اب یہاں کا حاکم تھا۔
ادھر سلطنت عثمانیہ میں "سلطان محمد فاتح " تخت نشین تھے۔سلطان محمد فاتح نے 1453ء کو بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرتے ہوئے قسطنطنیہ شہر کو فتح کر چکے تھے۔اس شہر کی فتح کے بعد سلطان فاتح نے880ھ /بمطابق1475ءمیں سلطان نے کریمیا کو فتح کیا۔
"ولاچیا کا بدنامِ زمانہ بادشاہ ولاد دی امپیرل جو کہ ڈریکولا کے نام سے بھی مشہور تھا"
اسی زمانے میں ولاچیا کے مظلوموں کی درد ناک چیخیں قسطنطنیہ شہر تک جا پہنچیں ۔1389ءمیں ہونےوالی کوسوا کی جنگ میں عیسائیوں کو شکست ہوئی تھی،جس کے بعد سے اب تک ولاچیا سلطنت عثمانیہ کی اطاعت قبول کر رہا تھا۔سلطان محمد فاتح کے تخت نشین ہونے کے بعد اس ریاست کا امیر ولاد چہارم تھا،اس نے کیا کچھ یوں کہ ایک تو سلطان فاتح سے بغاوت کر دی اور دوسری غلطی یہ کی کہ ولاچیا میں موجود عثمانی تاجروں کو اس نے نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔اس کے علاوہ اس نے اپنے ہم مذہب لوگوں کو بھی سخت اذیت ناک موتیں دیں۔یہاں تک کہ لوگ اسے "ڈراکو" یعنی شیطان کے لقب سے پکارنے لگے۔اسے معصوم لوگوں کو قتل کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا،اور وہ اس کے لیے اپنے شیطانی ذہن سے عضیب و غریب قتل کے طریقے ایجاد کرتا رہتا تھا۔لیکن سب سے ذیادہ لطف اسے جسم میں میخیں ٹھونک کر قتل کرانے میں آتا تھا۔
"ڈریکولا کا عقوبت خانہ جس میں لاکھوں بے گناہ قیدیوں کو وہ درد ناک موت دیا کرتا تھا"
ایک مشہور مؤرخ لکھتا ہے کہ۔:
"اس کے ہم عصر بادشاہوں میں ،جو کہ اس کی طرح ظالم تھے،لیکن وہ اس کے قتل کے انوکھے طریقوں سے خوف زدہ تھے اور اس کو ولاد دی امپیلر(یعنی کہ میخیں ٹھنکوا کر قتل کرنے والا) کہا کرتے تھے"
جب اس کے ظلم و ستم کی داستانیں سلطنت عثمانیہ کے پایہ تخت"قسطنطنیہ"پہنچیں تو سلطان محمد فاتح نے ایک طاقتور فوج تیار کی اور اسے سبق سیکھانے کے لیے نکل پڑے ،لیکن قبل اس کے کہ سلطان فاتح حملہ کرتے۔ولاد نے سلطان فاتح کے پاس ایک وفد بھیجا اور سلطان کی اطاعت کا اظہار کیا اور سالانہ 10ہزار دوکات خراج بھی دینے کا عہد کیا،اور اس کے ساتھ اس نے سلطان سے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کی از سر نو تصدیق کی جائے جو795ھ/بمطابق1393ءمیں عثمانی سلطان بایزید یلدرم اور امیر ولاچیا کے درمیان ہوا تھا،سلطان نے اسے منظور کر لیا اور ولاچیا کا وفد واپس چلا گیا۔لیکن یہ معاہدہ ولاد کا صرف ایک بہانہ تھا،اصل میں وہ سلطان کے حملے کو ٹال کر ہنگری کی مدد حاصل کرنا چاہتا تھا۔اسی لیے سلطان محمد کے واپس جاتے ہی اس نے ہنگری سے اتحاد کیا اور اپنی بدمعاشیوں کو عروج تک پہنچا دیا۔جب سلطان محمد فاتح کو اس کی خبر ملی تو سلطان نے تصدیق کے لیے اپنا ایک نمائندہ ولاچیا روانہ کیا ،لیکن ولاد نے اسے بھی بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروا ڈالا۔اس کے بعد اس نے سلطنت عثمانیہ کے ماتحت بخاریا پر حملہ کر دیا اور وہاں لوٹ مار مچا دی۔اور اس دوران اس نے بلغاریا کے 25ہزار باشندوں کو قیدی بنا کر ساتھ لے گیا،سلطان محمد فاتح نے اسے پیغام بھیجا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
"بلغاریہ کے 25ہزار قیدی جنہیں ڈریکولا نے زندہ نیزوں میں پڑو دیا تھا"
جوا ب میں ظالم ولاد نے سلطان کے ایلچیوں کے سروں میں میخیں ٹھنکوا کر انہیں قتل کرا دیا،جب یہ خبر سلطان محمد فاتح تک پہنچی تو سلطان نے ڈیڑھ لاکھ کی فوج کو جمع کیا اور اس ظالم کی سر کوبی کے لیےروانہ ہو گئے۔سلطان محمد اپنی فوجوں کے ساتھ ولاچیا پہنچے اور یکے بعد دیگرے شہروں کو فتح کرتے ہوئے سلطان ولاچیا کے پایہ تخت"بخارسٹ"جا پہنچے۔وہاں سلطان فاتح نے وہ لاشیں دیکھیں جو ولاد بخاریا سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لایا تھا۔لیکن یہاں ولاد سلطان فاتح کے ہاتھ نہ آیا،وہ بھاگ کر شاہِ ہنگری کے پاس چلا گیا۔سلطان محمد فاتح نے اس کو معزول کر کے اس کے بھائی "رادول" کو جس کی تربیت سلطان کے زیر نگرانی میں ہوئی تھی کو ولاچیا کا نیا امیر بنا دیا۔
آپ ناظرین ولاد دی امپیلر کی سفاقی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ۔:
"وہ لوگوں کو درد ناک موت دے کر ان کی لاشوں کو کھانےکے کمرے میں سجا کر رکھا کرتا تھا،
ایک بار جب ولاد کے مہمان نے اس بات پر تعجب کیا کہ وہ ایسے مرنے والے لوگوں کی کے جسم کی بد بو کیسے برداشت کرتا ہے،تو اس نے اپنے اس مہمان کو فوراً سولی پر چڑھوا دیا اور حکم دیا کہ سولی کا کھمبا دوسروں سے ذیادہ بلند رکھا جائے،تاکہ جس بو کہ مہمان نے شکایت کی ہے،اس کی تکلیف اسے نہ پہنچے۔"
"ایک مصور کی نظر میں"ولاد دی امپیرل"کا دسترخوان جس میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی باقیات بھی رکھی ہوئیں ہیں"
Good effort about history..